Tuesday, November 22, 2011

کبھی اے نوجواں مسلم


کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے

قوموں کی زندگی محض حال و مستقبل ہی سے وابستہ نہیں ہوتی،اُن کا ماضی بھی اُن کی پہچان اور راہ نمائی کا ایک موثر ذریعہ ہوتا ہے۔زندہ و بیدار قومیں دوسروں کی نقالی میں اپنے ماضی کی نفی کرنے کی بجائے اُس سے جڑی رہتی ہیں۔ایسی قوموں کی سنہری رواےات نسلِ جدید کی جانب منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ہماری تاریخ تو اللہ ے فضل سے شان دار ہے۔بدقسمتی سے ہمارے حکمران اِس سے بے خبر اور غیروں کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہیں۔آج ہم امتِ مسلمہ کے نوجوانوں کو اپنے ماضی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دےنا چاہتے ہیں۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ، جو قومیں اپنی نوجوان نسل کی مناسب تعلیم و تربیت کا اہتمام نہ کرسکیں وہ اپنی عزت کھوبیٹھتی اور اپنے روشن مستقبل سے محروم ہوجاتی ہیں ۔ بیدار مغز قیادت ہمیشہ نسل جدید کے لئے ایسا ماحول فراہم کرتی ہے ، جس میں اپنے بنیادی عقاید ونظریات کی آبیاری ہو ۔صحت مند معاشرہ اپنی منزل کا تعین کرکے یکسوئی کے ساتھ اس کی جانب گامزن ہوتااور اپنے تابناک ماضی سے آنے والی نسلوں کا رشتہ جوڑے رکھنے کا بھرپور اہتمام کرتاہے ۔جن امتوں کا حال ان کے ماضی سے لا تعلق ہو ، ان کا مستقبل ہمیشہ تزلزل اور بے یقینی کا شکار ہو ا کرتاہے ۔آج کے بچے کل جوان ہوں گے اور آج کے نوجوان کل معاملات ملکی و ملی کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لیںگے ۔ ہم اللہ کے فضل سے اتنا شان دار ماضی رکھتے ہیں کہ اس کی روشنی میں ہم مستقبل کی راہیں متعین کریں تو ہر جانب روشنی پھیل جائے ۔ ہمارے پاس ہدایت ربانی کے دوایسے سرچشمے موجود ہیں ، جس کے ہوتے ہوئے ہم کبھی گمراہ و ذلیل نہیں ہوسکتے ۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہم محض اپنے ورثے پر فخر و مباہات ہی میں گم ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ اسے حرز جان بنائیں ۔ اس کے اوامرنواہی کودل و جان سے تسلیم کریں اور اس کے جامع نظام کو بلاکم و کاست پورے اخلاص کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لیں ۔ اپنے آباﺅ اجداد پر فخر کرنا بجا ہے مگر وہ فخر باعث ننگ و عار ہوتاہے ، جس میں اخلاف اپنے اسلاف کی راہ سے ہٹے ہوئے ہوں ۔
سید نا علی بن ابی طالب نے کیا خوب فرمایاتھا :
انما الفتٰی من یقول ھا اناذا ولیس الفتٰی من یقول کان ابی
(جواں مرد تو وہ ہے جو میدان میں نکل کرکہے کہ میں چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود ہوں ، وہ کوئی جواں مردنہیں جو مشکل گھڑیوں میں یہ ڈینگیں مارتا پھرے کہ میرے آباو اجداد ایسے تھے اور ویسے تھے ۔)
عالم اسلام میں عالم کفر کے مقابلے میں نوجوانوں کا تناسب کہیں زیادہ ہے ۔ اپنی نوجوان نسل کی وجہ سے امت مسلمہ بہت بڑا سرمایہ اپنے دامن میں رکھتی ہے لیکن اغیار ہمیں ہماری تاریخ سے کاٹنے پر تل گئے ہیں ۔ واحسرتا !چوکیدار چوروں سے مل گئے ہیں بلکہ حقیقت میں چورہی چوکیدار بن گئے ہیں ۔ ہمارا تحفظ اس بات میں ہے کہ ہم اپنی اصل کو پہچانیں ،نہ کہ ہم دوسروں کی نقالی کی بھونڈی حرکتیں کریں ۔ مغرب نے ہمارے نظریات کی بیخ کنی کے لیے خوب سوچ سمجھ کر یہ منصوبہ بندی کی ہے کہ امت مسلمہ کی نوجوان پود کو فحاشی و عریانی ، بے حیائی واباحیت اور بدکاری و عیاشی کا رسیا بنادیا جائے ۔ تفریح کے نام پرایسا مسموم مواد ذہنوں میں انڈیلا جا رہاہے کہ جو زہر ہلا ہل سے بھی زیادہ مہلک ہے ۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اپنے اسلاف سے جوڑنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے ۔ علامہ اقبال نے بڑے درددل کے ساتھ اپنی مشہور زمانہ نظم ”خطاب نوجوانان اسلام “میں مسلم نوجوان کو اس کا مقام یاد دلایا تھا ،چند اشعار ملاحظہ فرمائیے ۔ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے؟ وہ کیا گردوں تھا ، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟ آج ضرورت اس امر کی ہےکہ نوجوان نسل کو اس دور سعید سے جوڑ دیا جائے ،جسے خیر القرون کہاگیاہے ۔ وہ دور کہ جب آسمان سے زمین پر براہ راست وحی کی روشنی اترتی تھی اور اس روشنی میں پروان چڑھنے والی نسل جیل القرآن کہلائی ۔ بعض لوگ یہ بحث چھیڑدیتے ہیں کہ جوان کون ہے۔ بلاشبہ عمر کا وہ حصہ جس میں صلاحیتیں مسلسل پروان چڑھتی چلی جاتی ہیں ، جسم و جان او ردل ودماغ کی قوتیں جوبن پر ہوتی ہیں اور کچھ کر گزرنے کا سودا سر میں سمایا ہوتاہے، اسی کو دور جوانی کہا جاتاہے ۔ اس معروف تعریف کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ بسا اوقات ماہ و سال کے پیمانوں سے ناپیں تو کوئی شخص نوجوان کہلانے کا مستحق ٹھہرے گا لیکن قلب و جگر اور جذبات وعزائم کو پرکھیں تو وہ جوان بوڑھا ثابت ہوگا ۔ اس کے برعکس بعض سفید ریش ، عمر رسیدہ افراد اپنی حرارت ایمانی اور حمیت دینی کی وجہ سے تازہ دم اور نوجوان کہلانے کے مستحق ٹھہریں گے ۔ یوں بیس سالہ بوڑھے اور ستر سالہ جوان بھی تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔ ہم ان نوجوانوں کو مخاطب کرنا چاہ رہے ہیں کہ جن کی جوانیاں بھی بے داغ ہوں اور ضرب کاری کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں ۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ،ضرب ہے کاری

Sunday, November 20, 2011

آج کا طالب علم ،کل کا راہ نما

جناب صدر ، مہمانان گرامی اور عزیز طلبا

السلام علیکم

میری آج کی گزارشات کا عنوان ہے آج کا طالب علم ،کل کا راہ نما

دلائل اخباریہ و جہانیہ ، دلائل برہانیہ وخطابیہ، دونوں اعلانیہ پلٹ کر کہہ رہے ہیں کہ آج کا طالب علم کل کا راہ نما ہے۔

حضرات گرامی! یہ دستور زمانہ ہےکہ کل جو پیدا ہوا، آج کا راہ نما ہے۔ اور جو آج پیدا ہوگا لامحالہ کل کی صدارت اور امارت اس کے حصے میں آئے گی۔ آپ نے دیکھا، علامہ محمد اقبال،محمد علی جناح، جواہرلال نہرو، گاندھی اور چرچل کل کے طالب علم تھے اور آج کے راہ نماہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کل طالب علم تھے اورڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹرثمر مبارک مندبھی ، جنھوں نے پاکستان کو علم وتحقیق میں نمایاں مقام دیا۔اسی اصول پرجو آج کے طالب علم ہیں وہ کل کے راہ نما ہوں گے۔ ان کی راہ نمائی میں یہ راز مضمر ہے کہ انھوں نے تعلیم کے زیور سے خود کو آراستہ کیا۔ اسی لیے علامہ محمد اقبال نے فرمایاتھا:

علم میں دولت بھی ہے، طاقت بھی ہے،لذت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

کسی بھی قوم کے نوجوان اس کا مستقبل اورسب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ جب ان نوجوانوں کی ہمت بلند اور عزم آہنی ہوتو کوئی انھیں شکست نہیں دے سکتا۔ پاکستان کے قیام میں انھی نوجوانوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا دیا۔ آج بھی ہم اپنی نوجواں نسل سے وہی توقع رکھتے ہیں۔ بہت سی کوتاہیوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان نوجوانوں میں آج بھی عزم وحوصلے کی کمی نہیں ہے۔ یہ کسی بھی میدان میں اپنا آپ منوانے کی ہمت رکھتے ہیں۔

لیکن شرط یہی ہے کہ آج کے طالب علم اپنی آج کی ذمہ داری کوپورا کریں۔ اپنی تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو علم وہنرسے آراستہ کریں تاکہ کل کے پاکستان کو قوموں کی صف میں نمایاں طور پر کھڑا کر سکیں۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند
اس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو