Sunday, January 20, 2013

ظلمت کے اندھیروں میں کر امید سحر پیدا


محترمہ صدر مجلس اور معزز حاضرات۔
السلام علیکم
میری گزارشات کا عنوان ہے:"ظلمت کے اندھیروں میں کر امید سحر پیدا"
ہم لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس کائنات رنگ و بو میں اور اس آگے حد لامکاں تک، صرف ایک ہستی کوواحد ہونے کاشرف حاصل ہے اور وہ ہے ذات باری تعالیٰ۔ اس کے علاوہ نہ تو کچھ مستقل ہے اور نہ ہی قائم و ثابت۔ آج ہم جس ظلمت وگمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ مایوسی وبد دلی کے بادل ہرطرف چھائے ہوئے ہیں۔ کہیں سے کسی کو  کوئی امید سحر نظر نہیں آتی  تو اس سے مایوس اور بد دل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایک اور قائم ہے ۔ اس  کے علاوہ ہر چیز کے منفی اور مثبت  دو    رُخ ہیں۔ اللہ نے ہررات کے بعد دن کو، ہر تکلیف کے بعد راحت کو، ہر سیاہ کے بعد سفید کو اور ہر مشکل کے بعد آسانی کوپیدا کیا ہے۔
اللہ فرماتا ہے:  فَإِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا۔ إِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًۭا۔ " پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔"
ہمیں اللہ کے فضل و کرم سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے پاس اپنے بندوں کی ہر مشکل کا حل موجود ہے۔ وہ رحمان و رحیم ہے۔ اور اپنے بندوں کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔اس کا اعلان ہے کہ: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔ "اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ "
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف لوٹیں۔ اسی کی عبادت کریں اور اسی سے مدد طلب کریں۔ جو ذمہ داریاں ہمارے سپرد اللہ نے کی ہیں انھیں ہم پورا کریں گے تو اللہ اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرے گا۔ ہمارا کا م یہ ہے کہ ہم اندھیروں کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کی مشعل روشن کرتے رہیں۔ہمارے اس ٹمٹماتے چراغ کو سورج بنانا اللہ کا کام ہے۔
ایک شاعرہ کے چند الفاظ کے ساتھ میں اپنی بات کا اختتام کرنا چاہتی ہوں:
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
دُکھوں کی سیاہ گھنیری راتوں سے بھی
کبھی تو روشنی کی کرن پھوٹے گی
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
ان مشکلوں کے بھنور میں ہی
کہیں تو امید ِ سحر بھی ملے گی
اُجاڑ بیابانوں اور تپتے ریگستانوں میں
کہیں تو کسی لمحہ آب کی صورت دِکھے گی
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
اِس خار سے پُر ویراں اِس دشت کے بعد
کبھی تو گلستاں کی منزل ملے گی
اِس حدود ِ دردسے آگے
یقینا اُس رحمان کی قربت ملے گی
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
اک بس انتظار اور بس انتظار
اِن دشوار راہوں سے آگے
ہاں مظبوط ہونگے یقیں کے یہ دھاگے
اور اک دن…
چھٹے گا یہ غم کا غبار
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
یہ سوچ کر بس میں کنول
اپنے دل کو سمجھا لیتی ہوں
دلاسہ اسے دے دیتی ہوں
میں ٹوٹ کے بکھر بھی جاؤں
تو کرچی کرچی خُ
ود کو سمیٹ لیتی ہوں
اور آنسوؤں سے پھر میں خُود کو
پگھلا کے اس سیسے کی مانند
اور مضبوط بنا لیتی ہوں

انقلاب ایک تبدیلی کا نام ہے


عزت ماب  صدر مجلس اور محترم حاضرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم   کی حیات کشمکش ِانقلاب
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہرزماں اپنے عمل کا حساب
صدر ِمحترم ،  علامہ صاحب نے انقلاب  کے بغیر زندگی کو موت سے تشبیہ دی ہے، اور اسے قوموں کی روح کی حیات قرار دیا ہے۔انقلاب ایک تبدیلی کا نام ہے۔ ایسی تبدیلی جو ذہنی  بھی ہوسکتی ہے اور جسمانی بھی۔انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی۔ عمومی حالات و واقعات  بھی بعض وقت انسان میں  ظاہری تبدیلی لاتے ہیں ، لیکن مادی بدلاؤ سے رونما ہونے والی تبدیلیاں  عارضی ہوتی ہیں ۔ ذہن کی تبدیلی تا دیر قائم رہنے والی ہوتی ہے۔ کچھ انقلاب ایسے ہوتے ہیں جو خاموشی سے آتے ہیں ،لیکن ان کے پس پشت بھی افراد کی انفرادی یا اجتماعی کوشش اور جدوجہد ہوتی ہے۔ جیسے کوئی مرد یا عورت مسلسل اچھے کام کر رہے ہیں تو انجام کے طور پر انہیں  اچھائی ہی ملے گی۔ اور جو برے کام میں  مصروف ہیں  تو ایک نہ ایک دن ان کا انجام برا ہی ہوگا۔
ہم جتنے اچھے کام کرتے جائیں  گے ، اتنا اچھائی میں  حصہ پائیں  گے اور جتنے برے کام کریں  گے، اتنا برا نتیجہ ملے کا۔ گو بعض کاموں  کا انجام جلد نکلتا ہے۔ اور بعض کاموں  کا نتیجہ دیر سے نکلتا ہے۔جب نکلتا ہے تو لوگوں  کی نظر میں  جو ان حالات سے نا واقف تھے ، ایک انقلاب ہوگا۔ اور یہی انقلاب ہوتا ہے۔ یہ افراد کی زندگی میں  آنے والے انقلاب ہیں ، اسی طرح قوموں  کی زندگی میں  بھی، انقلاب آتے ہیں ۔جو قوم کے مجموعی کام کا ردِعمل ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمْ ۔ بے شک اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
قوموں  کے انقلاب کی تاریخ پر جب نظر کی جائے تو ہمیں  معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی انقلاب از خود اوپر سے برسات کی طرح ٹپکتا نہیں  ہے ۔انقلاب ہمارے دروازوں  پر آکر دستک نہیں  دیتا ہے۔انقلاب یہ نہیں  کہتا کہ دروازہ کھولو، میں  انقلاب ہوں ، لو میں  آگیا۔ میں  آپکے گھر وں  میں  رہنے کے لیے، آپ کو خوشیاں  دینے کے لیے آیا ہوں ، ہر انقلاب ہمارے خون  پسینےسے کی گئی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے، ہم جس انداز کی محنت کریں  گے، اس انداز کا نتیجہ نکلے گا، منفی انداز کی محنت کا نتیجہ بھی منفی ہی ہوگا، اور مثبت انداز کا نتیجہ ہمیشہ مثبت ہی نکلتا ہے ۔صرف دعائیں  ، جو محنت سے خالی ہوں ، ہماری تقدیریں  نہیں  بدل سکتیں ، اسی لیے کہتے ہیں  ہماری تدبیر ہمیں  ہماری تقدیر کی طرف لے جاتی ہے۔ محنت سے ہر چیز کا حصول ممکن ہے۔لیکن صرف چیزوں  کا حصول ہی زندگی نہ بن جائے۔ یہاں  یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ صرف محنت سے بھی انسان تھک جاتا ہے، اگر اسے مستقبل قریب میں  کسی بڑے انعام کی توقع نہ ہو،یہ کام عقیدہ کرتا ہے۔ اللہ پر یقین انسان کو مستقل مزاج بناتا ہے۔ ناکامیوں  میں  مسکرانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے لیے انسان اپنی جان پر کھیل جاتا ہے۔ دوا او ر دعا دونوں  کا صحیح رخ میں  چلنا ، ایک دوسرے کاساتھ دینا ضروری ہے۔ ا س لیے آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی کاہلی کو چھوڑ کر ، اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے حالات کو بدلنے کا عزم کریں اور ہرانسان یہ طے کرلے کہ دوسرے چاہے جو کریں میں نے اپنی ذمہ داری کوہر حال میں پورا کرنا ہے۔

Thursday, November 24, 2011

ذہانت حسن سے بہتر ہے

ذہانت حسن سے بہتر ہے

صدرِ محترم،مہمانان گرامی اور عزیزطالبات۔

السلام علیکم

ہمارا آج کا موضوع ہے‘‘ ذہانت حسن سے بہتر ہے’’ اور اسی بات کی وکالت کے لیے میں آپ کے سامنے ہوں۔اہل فلسفہ نے کہا ہے کہ غرور کی پانچ قسمیں ہیں حسن کا غرور، دولت کاغرور ، طاقت کا غرور، علم کا غرور اور عشق کا غرور۔ پھر کہتے ہیں کہ حسن ،دولت اور طاقت کا غرور جائز نہیں، کیونکہ یہ تینوں صلاحیتیں انسان اپنی کوشش سے حاصل نہیں کرتا ،بلکہ اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں۔ اور پھر پرائی چیز پر غرور کیسا ۔ہاں علم کا غرور جائز تو ہے مگر اچھا ہے کہ نہ ہو لیکن عشق کا غرور انسان کے لیے

کروکج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

. کہ غرورِ عشق کا با نکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا

علامہ اقبال کے نزدیک، حسن، عقل اور عشق تین مدارج حیات ہیں۔ جب بات آتی ہے حسن و عشق کی تو لا محالہ ماننا پڑتا ہے کہ عشق دیوانہ ہے، حسن پیمانہ ہے۔ مگر جب ذکر چھڑ جائے عقل یعنی ذہانت کا تو حضرت اقبال کو بھی کہنا پڑتاہے کہ

عشق، اب پیروئ ِ عقل ِ خداد کرے

آبرو کوچہء جاناں میں نہ برباد کرے

جنابِ والا!

میں یہاں یہ عرض کروں گی کہ میری مراد انسانی حسن و جمال ہے، یہاں مقصود شکل و شباہت کی خوبی ہے۔ چنانچہ لا محالہ کہنا پڑے گا کہ عقل ہی برتر ہے۔ کیونکہ عقل کے بغیرحسن تو خود گہنائے ہوئے چاند کی طرح ہے۔کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص جو عقل سے محروم ہو،چاہے کتنا ہی پری جمال کیوں نہ ہو،کوئی اسے زندگی کا ساتھی نہیں بنا سکتا۔ البتہ جمال سے محروم کوئ بھی فرد ،عقل کی بنیاد پر کسی کی زندگی میں شامل ہوسکتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ حسن وجمال میں بلا کی کشش ہے۔ حسن کو عقل پر ترجیح دینے والے لوگوں میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ ، “اگر ملکہ قلوپطرہ کی ناک تھوڑی سی ٹیرھی ہوتی تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

جناب والا !

ایسا کہنے ہوئے ان کے پیش ِ نظر یہ ہوتا ہے کہ قلوپطرہ کا حسن سیزر کی فتوحات اور جنگوں کا باعث بنا۔ مگر تاریخ کو اُٹھا کر دیکھیے، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اُن فتوحات کے پیچھے قلوپطر ہ کی خوبصورت ناک نہیں بلکہ اُس کی بے پناہ ذہانت تھی۔

حاضرین محترم

علامہ اقبال فرماتے ہیں،

اک دانشِ نورانی، اک دانشِ برہانی

!ہے دانشِ برہانی، حیرت کی فراوانی

جی ہاں ! جناب والا!

دانشِ برہانی ہی ذہانت ہے، جو حیرت کدوں کو جنم دیتی اور پروان چڑھاتی ہے۔ اسے قرآن پاک کی زبان میں حکمت کہتے ہیں۔ اور قرآن پاک میں حکمت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا

اللہ جسے چاہتا ہے حکمت ودانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت ودانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔

حسن تو عارضی چیز ہے۔ آج ہے کل نہیں، بقولِ شاعر،

اُس کے چہرے پہ چڑھا روپ اُتر جائے گا

جب جوانی کا حسیں دور گزر جائے گا

لیکن ،حاضرین محترم ذہانت ایک ایسا انسانی اعزاز ہے جو سدا قائم و دائم رہتا ہے۔ کیونکہ ذہانت علم و حکمت کا منبع و مصدر ہے۔

میں یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ

حسن خیروشر دونوں کا موجب بن سکتا ہے ،مگر ذہانت صرف خیر ہی خیر ہے۔حسن تاج محل ہے تو ذہانت تاج محل بنانے والا ہاتھ ہے۔ حسن جلوہ گر ہے تو ذہانت حسن کا گھر ہے۔حسن پُر کشش ہے تو ذہانت دانش ہے۔حسن علامت ہے تو ذہانت فراست ہے۔ حسن کمال ہے تو ذہانت استقبال ہے، حسن جمال ہے تو ذہانت خیال ہے، حسن منظر ہے تو ذہانت ناظر ہے، حسن قدرت ہے تو ذہانت فطرت ہے،حتی کہ حسن مقصد زندگی ہے تو ذہانت خود زندگی ہے۔

Tuesday, November 22, 2011

Islamic Art

Click here to view these pictures larger

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔

۔ میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کاضمیر

علامہ اقبال نے اس مصرعے میں ایک بہت بڑی حقیقت کو بیان فرمایاہے ۔قوم غلام کیاہوتی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اطوار بدلتے چلے جاتے ہیں ۔ جو ناخوب ہوبتدریج وہی خوب ہوتاجاتاہے ۔اس کی تہذیب وثقافت ،اس کی عادات ورسومات میں نیا رنگ جھلکنے لگتا ہے ۔ چال ڈھال ،رفتار گفتارمیں تبدیلی آجاتی ہے ۔رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہوجاتاہے ۔اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے ،رکھ رکھائو،وضع قطع سب بدل جاتے ہیں ۔پسند وناپسند کا معیار دوسراہوجاتاہے ۔ادب پر اجنبی رنگ چڑھ جاتاہے ۔وہ ادب معیاری سمجھاجاتاہے جو فاتح قوم کے ادب کاچربہ ہو،حوالے کے لیے انہی ادیبوں کانام اورکام پیش کیا جاتاہے جو غالب قوم سے تعلق رکھتے ہوں ،زباں بلکہ ہرچیز میں پیوند لگ جاتاہے ۔غلامی ہے ہی ایک پیوند کاری جس میں دیسی آم قلمی آم کی خصوصیات اختیار کر لیتا ہے ۔دور غلامی کے انداز واطوار دراصل ایک دوسری غلامی کی نشان دہی کرتے ہیں،وہ ہے فکری غلامی ،فکرجب غلام ہوجائے تو شاہین کرگس اور شیر گیڈر کا روپ دھار لیتے ہیں۔اس غلامی کا ایک رخ اور بھی ہے جو تخریب نہیں تعمیر ہے ،جو روح کی سرشاری ،اعلی اخلاق کے حصول اورآخرت کی آبادی سے عبارت ہے جو ممولے کو شہباز سے لڑاتی ہے ،یہاں اس رخ کی بات ہورہی ہے جو ملت کا ننگ ،دین کی بربادی اوردنیاکی رسوائی ہے ۔
مسلمانوںپرایسے کئی ادوار آئے جن میں غیر اقوام نے ان پر تسلط جما لیامگر وہ شخصی اور جغرافیائی غلامی تھی ،جلد ہی وہ قومیں مسلم فکر ونظر کی اسیر ہوگئیں انہوں نے گھٹنے ٹیک دیے ۔اقبال کے الفاظ میں
پاسباںمل گئے کعبے کوصنم خانے سے
مغربی اقوام نے بھی مسلم تہذیب اور علم وفن سے بہت کچھ حاصل کیا۔اسی کے سہارے انہوں نے گھٹنوں گھٹنوں چلناسیکھایہاں تک کہ دوڑنے لگ گئیں ۔مسلمانوں سے انہوں نے جوکچھ حاصل کیا اس پر اضافات کرتے ہوئے ایک طرف علم ونظر کے نئے دیے جلائے اوردوسری طرف تہذیب وثقافت کے متضاد راستوں پرچل نکلے ۔یہ بے خدا وبے دین ننگی اورمادی تہذیب تھی جس کے پہلوئوں میںاگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے آفتاب اور جنگ وجدل کے نئے سامان تھے تو اس کے پس پشت شاطر ومکار ذہن کام کر رہاتھا۔سامنے وسیع مسلم حکومتیں تھیں شاداب زرخیز اور مال وزر سے لدے ہوئے مسلم علاقے جن کے وارث اپنا اصلی مقصد بھول کرآپس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے ۔مسلمانوں کے سیاسی مراکز شکست وریخت کاشکار تھے ۔یہ قومیں ان علاقوں پر یوں حملہ آوروہوئیں جیسے سرد راتوں میں کہر اترتی ہے ۔تھوڑے ہی عرصے میں مسلمان پٹ گئے ۔مغربی قوموں نے انہیں اپنی غلامی میں لے لیا ۔مگر اب کی بار معاملہ دوسراہوگیا بجائے اس کے کہ یہ اقوام مسلمانوں کااثر قبول کرتیں الٹا مسلمان ان کے پنجہ ء تہذیب میں گرفتارہوگئے۔

مغربی قوتوں نے پہلے تو مسلمانوں کی جغرافیائی حدود پر قبضہ کیا پھررفتہ رفتہ مسلمانوں کی فکر پر بھی غلبہ حاصل کرلیا ۔غلامی کا حدود اربعہ صرف برصغیر تک ہی محدود نہیں*بل کہ ہر اس خطے تک پھیلاہوا ہے جو براہ راست ان کے قبضے میں*رہاخطہ ء عر ب کو چھوٹی چھوٹی ٹکریوں*میں*بانٹنا انہی ٹوڈیوں*کی وجہ سے ممکن ہوااردن ویمن کی بادشاہتیں*امارات کی ریاستیں*اورعراق ومصروشام کے ڈکٹیٹر اسی نسل کے شاید اآخری آثار ہیں*جو جنگ عظیم اول سے پہلے انگریز نے تیار کی تھی ۔
آج کے مسلمان بدترین غلامی کاشکار ہیں ،جغرافیائی طور پر گوآزاد ہوچکے ہیں مگر فکری طور پر ان کے غلام ہی ہیں، اسی غلامی کا نتیجہ معاشی ،معاشرتی ،تہذیبی اور عسکری غلامی کی صور ت میں برآمد ہوا ہے۔ ایک مصیبت تو یہ ہے دوسر ی مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق سام راجی قوتیںجاتے جاتے ہمیں کاٹھے انگریزوں کا تحفہ دے گئیں ۔اُن کی نوازشات سے لاٹ نواب اورصاحب بہادر وغیرہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے جب کہ عام آدمی ان کے سامنے چابی کا کھلونا بن کررہ گیا۔یہ لوگ جنہوں نے سرکار برطانیہ اور انکل سام کی چوکھٹ کو اپنا قبلہ وکعبہ بنارکھا ہے انسانوں کی اس برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو شاہ سے بڑھ کرشاہ کی وفادار ہوتی ہے
غلامی قوم کو بزدل بنادیتی ہے ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم من حیث القوم اپنی خودی اور وقار کو پہچانیں اور دنیاوی آسائشوں کو چھوڑ کر سخت کوشی کی زندگی گزارتے ہوئے اپنے آپ کو غلامی کے پنجے سے نکالیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا ہے:

مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر


وقت ایک دولت

وقت ایک دولت

جناب صدر، مہمانان گرامی اور عزیز طلبا

السلام علیکم

میری آج کی گزارشات کا عنوان ہے: وقت ایک دولت

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی

جناب عالی، وقت اللہ کی بہت بڑی نعمت اور دولت ہے جو اس نے انسانوں کو بخشی ہے تاکہ وہ اس کے بہتر استعمال سے اپنے دنیاوی اور اخروی مستقبل کو تابناک بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے وقت کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں والفجر، والیل، والضحیٰ، اور والعصر کہہ کر وقت کے مختلف حصوں کی قسمیں کھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ وہ ہمیشہ کسی غیر معمولی شے پر قسم کھاتا ہے۔ لہٰذا ان آیات میں جو اس نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ان کے ذریعے درحقیقت ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اپنی زندگی کے اوقات کو معمولی اور حقیر نہ سمجھو، اس کے ایک ایک لمحہ کا تم سے حساب ہونا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لئے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہئے۔

اندازہ کیجیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیروکاروںکو کس قدر وقت کی اہمیت اور اعمال صالحہ کا احساس دلا رہے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور کوئی اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی ذرا بھر نیکی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس میں بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ فوراً نیکی کر ڈالے، اور اپنا وقت ضائع نہ کرے۔

بحیثیت مسلمان ہمیں باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کرنا چاہیے ۔تمام اسلامی تعلیمات ، نماز، روزہ، حج ،زکوٰۃ مسلمانوں کی زندگی میں وقت کی اہمیت کوظاہر کرتی ہیں۔ساری عبادات مخصوص اوقات میں فرض کی گئی ہیں۔ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں ضائع کرنے کے لیے وقت بالکل نہیں ہوتا۔ زندگی، آخرت کے لئے کھیتی کی مانند ہے۔ ہم اس میں جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ اگر ہم اس زندگی میں اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے بھلائی، خیر اور حسنات کے بیج بونے میں صرف کریں گے تو کل یوم قیامت ہمیں فلاح و نجات کا ثمر ملے گا۔ دنیا کی زندگی اور اس کا مال و اسباب عارضی اور فانی ہے۔ ہر نفس نے یہاں اپنی مقررہ مدت گزارنے کے بعد دار آخرت کو کوچ کرنا ہے جو مستقل اور ابدی ٹھکانہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت برحق ہے۔ اس عقیدہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم اس دنیا میں غفلت کی زندگی گزاریں تو نہایت تعجب کی بات ہے۔

یاد رکھیں کہ زندگی کی صورت میں جو ’وقت‘ ہم گزار رہے ہیں اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ وقت ایک ایسی چیز ہے جسے آپ کسی بھی کرنسی کے عوض خرید نہیں سکتے۔ یہ انسان کا ایسا محفوظ سرمایہ ہے جو اہس کو دنیا اور آخرت میں نفع دیتا ہے۔ دنیا میں انسان اگر کسی قیمتی چیز کو کھو دے تو امید ہوتی ہے کہ وہ چیز شاید اسے پھر کبھی مل جائے اور بعض اوقات اسے مل بھی جاتی ہے لیکن وقت ایسی چیز ہے جو ایک بار گزر جائے تو پھر اس کے واپس آنے کی ہرگز امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔وقت ایک ایسی دولت ہے جسے موبائل پرمیسج کرنے، ٹی وی دیکھنے، انٹرنیٹ پر چیٹ کرنے اور ساری ساری رات لمبی بات کرنے میں ضائع کرنے کے بجائے خدمت خلق ،ملک وقوم کی ترقی اور حصول علم میں صرف کرنا چاہیے۔قوموں کی زندگی میں بھی وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جو قومیں اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئے اس کا بہتر استعمال کرتی ہیں وہ بالاخر دنیا کی قیادت کرتی ہیں اور جو قومیں اپنا وقت فضول مشاغل میں ضائع کرتی ہیں ان کے حصے میں ذلت وپستی اور غلامی ومحکومیت آتی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں وقت کی قدر کرنے اور اپنے ملک و قوم کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کی توفیق دے۔