۔ میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کاضمیر
علامہ اقبال نے اس مصرعے میں ایک بہت بڑی حقیقت کو بیان فرمایاہے ۔قوم غلام کیاہوتی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اطوار بدلتے چلے جاتے ہیں ۔ جو ناخوب ہوبتدریج وہی خوب ہوتاجاتاہے ۔اس کی تہذیب وثقافت ،اس کی عادات ورسومات میں نیا رنگ جھلکنے لگتا ہے ۔ چال ڈھال ،رفتار گفتارمیں تبدیلی آجاتی ہے ۔رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہوجاتاہے ۔اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے ،رکھ رکھائو،وضع قطع سب بدل جاتے ہیں ۔پسند وناپسند کا معیار دوسراہوجاتاہے ۔ادب پر اجنبی رنگ چڑھ جاتاہے ۔وہ ادب معیاری سمجھاجاتاہے جو فاتح قوم کے ادب کاچربہ ہو،حوالے کے لیے انہی ادیبوں کانام اورکام پیش کیا جاتاہے جو غالب قوم سے تعلق رکھتے ہوں ،زباں بلکہ ہرچیز میں پیوند لگ جاتاہے ۔غلامی ہے ہی ایک پیوند کاری جس میں دیسی آم قلمی آم کی خصوصیات اختیار کر لیتا ہے ۔دور غلامی کے انداز واطوار دراصل ایک دوسری غلامی کی نشان دہی کرتے ہیں،وہ ہے فکری غلامی ،فکرجب غلام ہوجائے تو شاہین کرگس اور شیر گیڈر کا روپ دھار لیتے ہیں۔اس غلامی کا ایک رخ اور بھی ہے جو تخریب نہیں تعمیر ہے ،جو روح کی سرشاری ،اعلی اخلاق کے حصول اورآخرت کی آبادی سے عبارت ہے جو ممولے کو شہباز سے لڑاتی ہے ،یہاں اس رخ کی بات ہورہی ہے جو ملت کا ننگ ،دین کی بربادی اوردنیاکی رسوائی ہے ۔
مسلمانوںپرایسے کئی ادوار آئے جن میں غیر اقوام نے ان پر تسلط جما لیامگر وہ شخصی اور جغرافیائی غلامی تھی ،جلد ہی وہ قومیں مسلم فکر ونظر کی اسیر ہوگئیں انہوں نے گھٹنے ٹیک دیے ۔اقبال کے الفاظ میں
پاسباںمل گئے کعبے کوصنم خانے سے
مغربی اقوام نے بھی مسلم تہذیب اور علم وفن سے بہت کچھ حاصل کیا۔اسی کے سہارے انہوں نے گھٹنوں گھٹنوں چلناسیکھایہاں تک کہ دوڑنے لگ گئیں ۔مسلمانوں سے انہوں نے جوکچھ حاصل کیا اس پر اضافات کرتے ہوئے ایک طرف علم ونظر کے نئے دیے جلائے اوردوسری طرف تہذیب وثقافت کے متضاد راستوں پرچل نکلے ۔یہ بے خدا وبے دین ننگی اورمادی تہذیب تھی جس کے پہلوئوں میںاگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے آفتاب اور جنگ وجدل کے نئے سامان تھے تو اس کے پس پشت شاطر ومکار ذہن کام کر رہاتھا۔سامنے وسیع مسلم حکومتیں تھیں شاداب زرخیز اور مال وزر سے لدے ہوئے مسلم علاقے جن کے وارث اپنا اصلی مقصد بھول کرآپس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے ۔مسلمانوں کے سیاسی مراکز شکست وریخت کاشکار تھے ۔یہ قومیں ان علاقوں پر یوں حملہ آوروہوئیں جیسے سرد راتوں میں کہر اترتی ہے ۔تھوڑے ہی عرصے میں مسلمان پٹ گئے ۔مغربی قوموں نے انہیں اپنی غلامی میں لے لیا ۔مگر اب کی بار معاملہ دوسراہوگیا بجائے اس کے کہ یہ اقوام مسلمانوں کااثر قبول کرتیں الٹا مسلمان ان کے پنجہ ء تہذیب میں گرفتارہوگئے۔
مغربی قوتوں نے پہلے تو مسلمانوں کی جغرافیائی حدود پر قبضہ کیا پھررفتہ رفتہ مسلمانوں کی فکر پر بھی غلبہ حاصل کرلیا ۔غلامی کا حدود اربعہ صرف برصغیر تک ہی محدود نہیں*بل کہ ہر اس خطے تک پھیلاہوا ہے جو براہ راست ان کے قبضے میں*رہاخطہ ء عر ب کو چھوٹی چھوٹی ٹکریوں*میں*بانٹنا انہی ٹوڈیوں*کی وجہ سے ممکن ہوااردن ویمن کی بادشاہتیں*امارات کی ریاستیں*اورعراق ومصروشام کے ڈکٹیٹر اسی نسل کے شاید اآخری آثار ہیں*جو جنگ عظیم اول سے پہلے انگریز نے تیار کی تھی ۔
آج کے مسلمان بدترین غلامی کاشکار ہیں ،جغرافیائی طور پر گوآزاد ہوچکے ہیں مگر فکری طور پر ان کے غلام ہی ہیں، اسی غلامی کا نتیجہ معاشی ،معاشرتی ،تہذیبی اور عسکری غلامی کی صور ت میں برآمد ہوا ہے۔ ایک مصیبت تو یہ ہے دوسر ی مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق سام راجی قوتیںجاتے جاتے ہمیں کاٹھے انگریزوں کا تحفہ دے گئیں ۔اُن کی نوازشات سے لاٹ نواب اورصاحب بہادر وغیرہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے جب کہ عام آدمی ان کے سامنے چابی کا کھلونا بن کررہ گیا۔یہ لوگ جنہوں نے سرکار برطانیہ اور انکل سام کی چوکھٹ کو اپنا قبلہ وکعبہ بنارکھا ہے انسانوں کی اس برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو شاہ سے بڑھ کرشاہ کی وفادار ہوتی ہے
غلامی قوم کو بزدل بنادیتی ہے ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم من حیث القوم اپنی خودی اور وقار کو پہچانیں اور دنیاوی آسائشوں کو چھوڑ کر سخت کوشی کی زندگی گزارتے ہوئے اپنے آپ کو غلامی کے پنجے سے نکالیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا ہے:
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر
ذہن و دل کو بیدار کرتی ہوٸ شاندار تحریربہت خوب
ReplyDeleteاللہ کرے زور قلم اور زیادہ