Sunday, January 20, 2013

ظلمت کے اندھیروں میں کر امید سحر پیدا


محترمہ صدر مجلس اور معزز حاضرات۔
السلام علیکم
میری گزارشات کا عنوان ہے:"ظلمت کے اندھیروں میں کر امید سحر پیدا"
ہم لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اس کائنات رنگ و بو میں اور اس آگے حد لامکاں تک، صرف ایک ہستی کوواحد ہونے کاشرف حاصل ہے اور وہ ہے ذات باری تعالیٰ۔ اس کے علاوہ نہ تو کچھ مستقل ہے اور نہ ہی قائم و ثابت۔ آج ہم جس ظلمت وگمراہی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں گھرے ہوئے ہیں۔ مایوسی وبد دلی کے بادل ہرطرف چھائے ہوئے ہیں۔ کہیں سے کسی کو  کوئی امید سحر نظر نہیں آتی  تو اس سے مایوس اور بد دل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایک اور قائم ہے ۔ اس  کے علاوہ ہر چیز کے منفی اور مثبت  دو    رُخ ہیں۔ اللہ نے ہررات کے بعد دن کو، ہر تکلیف کے بعد راحت کو، ہر سیاہ کے بعد سفید کو اور ہر مشکل کے بعد آسانی کوپیدا کیا ہے۔
اللہ فرماتا ہے:  فَإِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًا۔ إِنَّ مَعَ ٱلْعُسْرِ يُسْرًۭا۔ " پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔ بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔"
ہمیں اللہ کے فضل و کرم سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے پاس اپنے بندوں کی ہر مشکل کا حل موجود ہے۔ وہ رحمان و رحیم ہے۔ اور اپنے بندوں کی شاہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔اس کا اعلان ہے کہ: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنِّى قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ ٱلدَّاعِ إِذَا دَعَانِ۔ "اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ "
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے رب کی طرف لوٹیں۔ اسی کی عبادت کریں اور اسی سے مدد طلب کریں۔ جو ذمہ داریاں ہمارے سپرد اللہ نے کی ہیں انھیں ہم پورا کریں گے تو اللہ اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرے گا۔ ہمارا کا م یہ ہے کہ ہم اندھیروں کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کی مشعل روشن کرتے رہیں۔ہمارے اس ٹمٹماتے چراغ کو سورج بنانا اللہ کا کام ہے۔
ایک شاعرہ کے چند الفاظ کے ساتھ میں اپنی بات کا اختتام کرنا چاہتی ہوں:
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
دُکھوں کی سیاہ گھنیری راتوں سے بھی
کبھی تو روشنی کی کرن پھوٹے گی
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
ان مشکلوں کے بھنور میں ہی
کہیں تو امید ِ سحر بھی ملے گی
اُجاڑ بیابانوں اور تپتے ریگستانوں میں
کہیں تو کسی لمحہ آب کی صورت دِکھے گی
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
اِس خار سے پُر ویراں اِس دشت کے بعد
کبھی تو گلستاں کی منزل ملے گی
اِس حدود ِ دردسے آگے
یقینا اُس رحمان کی قربت ملے گی
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
اک بس انتظار اور بس انتظار
اِن دشوار راہوں سے آگے
ہاں مظبوط ہونگے یقیں کے یہ دھاگے
اور اک دن…
چھٹے گا یہ غم کا غبار
کبھی ہوگی اُمید ِ سحر
یہ سوچ کر بس میں کنول
اپنے دل کو سمجھا لیتی ہوں
دلاسہ اسے دے دیتی ہوں
میں ٹوٹ کے بکھر بھی جاؤں
تو کرچی کرچی خُ
ود کو سمیٹ لیتی ہوں
اور آنسوؤں سے پھر میں خُود کو
پگھلا کے اس سیسے کی مانند
اور مضبوط بنا لیتی ہوں

انقلاب ایک تبدیلی کا نام ہے


عزت ماب  صدر مجلس اور محترم حاضرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم   کی حیات کشمکش ِانقلاب
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہرزماں اپنے عمل کا حساب
صدر ِمحترم ،  علامہ صاحب نے انقلاب  کے بغیر زندگی کو موت سے تشبیہ دی ہے، اور اسے قوموں کی روح کی حیات قرار دیا ہے۔انقلاب ایک تبدیلی کا نام ہے۔ ایسی تبدیلی جو ذہنی  بھی ہوسکتی ہے اور جسمانی بھی۔انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی۔ عمومی حالات و واقعات  بھی بعض وقت انسان میں  ظاہری تبدیلی لاتے ہیں ، لیکن مادی بدلاؤ سے رونما ہونے والی تبدیلیاں  عارضی ہوتی ہیں ۔ ذہن کی تبدیلی تا دیر قائم رہنے والی ہوتی ہے۔ کچھ انقلاب ایسے ہوتے ہیں جو خاموشی سے آتے ہیں ،لیکن ان کے پس پشت بھی افراد کی انفرادی یا اجتماعی کوشش اور جدوجہد ہوتی ہے۔ جیسے کوئی مرد یا عورت مسلسل اچھے کام کر رہے ہیں تو انجام کے طور پر انہیں  اچھائی ہی ملے گی۔ اور جو برے کام میں  مصروف ہیں  تو ایک نہ ایک دن ان کا انجام برا ہی ہوگا۔
ہم جتنے اچھے کام کرتے جائیں  گے ، اتنا اچھائی میں  حصہ پائیں  گے اور جتنے برے کام کریں  گے، اتنا برا نتیجہ ملے کا۔ گو بعض کاموں  کا انجام جلد نکلتا ہے۔ اور بعض کاموں  کا نتیجہ دیر سے نکلتا ہے۔جب نکلتا ہے تو لوگوں  کی نظر میں  جو ان حالات سے نا واقف تھے ، ایک انقلاب ہوگا۔ اور یہی انقلاب ہوتا ہے۔ یہ افراد کی زندگی میں  آنے والے انقلاب ہیں ، اسی طرح قوموں  کی زندگی میں  بھی، انقلاب آتے ہیں ۔جو قوم کے مجموعی کام کا ردِعمل ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمْ ۔ بے شک اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
قوموں  کے انقلاب کی تاریخ پر جب نظر کی جائے تو ہمیں  معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی انقلاب از خود اوپر سے برسات کی طرح ٹپکتا نہیں  ہے ۔انقلاب ہمارے دروازوں  پر آکر دستک نہیں  دیتا ہے۔انقلاب یہ نہیں  کہتا کہ دروازہ کھولو، میں  انقلاب ہوں ، لو میں  آگیا۔ میں  آپکے گھر وں  میں  رہنے کے لیے، آپ کو خوشیاں  دینے کے لیے آیا ہوں ، ہر انقلاب ہمارے خون  پسینےسے کی گئی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے، ہم جس انداز کی محنت کریں  گے، اس انداز کا نتیجہ نکلے گا، منفی انداز کی محنت کا نتیجہ بھی منفی ہی ہوگا، اور مثبت انداز کا نتیجہ ہمیشہ مثبت ہی نکلتا ہے ۔صرف دعائیں  ، جو محنت سے خالی ہوں ، ہماری تقدیریں  نہیں  بدل سکتیں ، اسی لیے کہتے ہیں  ہماری تدبیر ہمیں  ہماری تقدیر کی طرف لے جاتی ہے۔ محنت سے ہر چیز کا حصول ممکن ہے۔لیکن صرف چیزوں  کا حصول ہی زندگی نہ بن جائے۔ یہاں  یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ صرف محنت سے بھی انسان تھک جاتا ہے، اگر اسے مستقبل قریب میں  کسی بڑے انعام کی توقع نہ ہو،یہ کام عقیدہ کرتا ہے۔ اللہ پر یقین انسان کو مستقل مزاج بناتا ہے۔ ناکامیوں  میں  مسکرانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے لیے انسان اپنی جان پر کھیل جاتا ہے۔ دوا او ر دعا دونوں  کا صحیح رخ میں  چلنا ، ایک دوسرے کاساتھ دینا ضروری ہے۔ ا س لیے آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی کاہلی کو چھوڑ کر ، اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے حالات کو بدلنے کا عزم کریں اور ہرانسان یہ طے کرلے کہ دوسرے چاہے جو کریں میں نے اپنی ذمہ داری کوہر حال میں پورا کرنا ہے۔