Thursday, November 24, 2011

ذہانت حسن سے بہتر ہے

ذہانت حسن سے بہتر ہے

صدرِ محترم،مہمانان گرامی اور عزیزطالبات۔

السلام علیکم

ہمارا آج کا موضوع ہے‘‘ ذہانت حسن سے بہتر ہے’’ اور اسی بات کی وکالت کے لیے میں آپ کے سامنے ہوں۔اہل فلسفہ نے کہا ہے کہ غرور کی پانچ قسمیں ہیں حسن کا غرور، دولت کاغرور ، طاقت کا غرور، علم کا غرور اور عشق کا غرور۔ پھر کہتے ہیں کہ حسن ،دولت اور طاقت کا غرور جائز نہیں، کیونکہ یہ تینوں صلاحیتیں انسان اپنی کوشش سے حاصل نہیں کرتا ،بلکہ اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں۔ اور پھر پرائی چیز پر غرور کیسا ۔ہاں علم کا غرور جائز تو ہے مگر اچھا ہے کہ نہ ہو لیکن عشق کا غرور انسان کے لیے

کروکج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

. کہ غرورِ عشق کا با نکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا

علامہ اقبال کے نزدیک، حسن، عقل اور عشق تین مدارج حیات ہیں۔ جب بات آتی ہے حسن و عشق کی تو لا محالہ ماننا پڑتا ہے کہ عشق دیوانہ ہے، حسن پیمانہ ہے۔ مگر جب ذکر چھڑ جائے عقل یعنی ذہانت کا تو حضرت اقبال کو بھی کہنا پڑتاہے کہ

عشق، اب پیروئ ِ عقل ِ خداد کرے

آبرو کوچہء جاناں میں نہ برباد کرے

جنابِ والا!

میں یہاں یہ عرض کروں گی کہ میری مراد انسانی حسن و جمال ہے، یہاں مقصود شکل و شباہت کی خوبی ہے۔ چنانچہ لا محالہ کہنا پڑے گا کہ عقل ہی برتر ہے۔ کیونکہ عقل کے بغیرحسن تو خود گہنائے ہوئے چاند کی طرح ہے۔کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص جو عقل سے محروم ہو،چاہے کتنا ہی پری جمال کیوں نہ ہو،کوئی اسے زندگی کا ساتھی نہیں بنا سکتا۔ البتہ جمال سے محروم کوئ بھی فرد ،عقل کی بنیاد پر کسی کی زندگی میں شامل ہوسکتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ حسن وجمال میں بلا کی کشش ہے۔ حسن کو عقل پر ترجیح دینے والے لوگوں میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ ، “اگر ملکہ قلوپطرہ کی ناک تھوڑی سی ٹیرھی ہوتی تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

جناب والا !

ایسا کہنے ہوئے ان کے پیش ِ نظر یہ ہوتا ہے کہ قلوپطرہ کا حسن سیزر کی فتوحات اور جنگوں کا باعث بنا۔ مگر تاریخ کو اُٹھا کر دیکھیے، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اُن فتوحات کے پیچھے قلوپطر ہ کی خوبصورت ناک نہیں بلکہ اُس کی بے پناہ ذہانت تھی۔

حاضرین محترم

علامہ اقبال فرماتے ہیں،

اک دانشِ نورانی، اک دانشِ برہانی

!ہے دانشِ برہانی، حیرت کی فراوانی

جی ہاں ! جناب والا!

دانشِ برہانی ہی ذہانت ہے، جو حیرت کدوں کو جنم دیتی اور پروان چڑھاتی ہے۔ اسے قرآن پاک کی زبان میں حکمت کہتے ہیں۔ اور قرآن پاک میں حکمت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا

اللہ جسے چاہتا ہے حکمت ودانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت ودانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔

حسن تو عارضی چیز ہے۔ آج ہے کل نہیں، بقولِ شاعر،

اُس کے چہرے پہ چڑھا روپ اُتر جائے گا

جب جوانی کا حسیں دور گزر جائے گا

لیکن ،حاضرین محترم ذہانت ایک ایسا انسانی اعزاز ہے جو سدا قائم و دائم رہتا ہے۔ کیونکہ ذہانت علم و حکمت کا منبع و مصدر ہے۔

میں یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ

حسن خیروشر دونوں کا موجب بن سکتا ہے ،مگر ذہانت صرف خیر ہی خیر ہے۔حسن تاج محل ہے تو ذہانت تاج محل بنانے والا ہاتھ ہے۔ حسن جلوہ گر ہے تو ذہانت حسن کا گھر ہے۔حسن پُر کشش ہے تو ذہانت دانش ہے۔حسن علامت ہے تو ذہانت فراست ہے۔ حسن کمال ہے تو ذہانت استقبال ہے، حسن جمال ہے تو ذہانت خیال ہے، حسن منظر ہے تو ذہانت ناظر ہے، حسن قدرت ہے تو ذہانت فطرت ہے،حتی کہ حسن مقصد زندگی ہے تو ذہانت خود زندگی ہے۔

Tuesday, November 22, 2011

Islamic Art

Click here to view these pictures larger

میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔

۔ میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے۔ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کاضمیر

علامہ اقبال نے اس مصرعے میں ایک بہت بڑی حقیقت کو بیان فرمایاہے ۔قوم غلام کیاہوتی ہے، دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اطوار بدلتے چلے جاتے ہیں ۔ جو ناخوب ہوبتدریج وہی خوب ہوتاجاتاہے ۔اس کی تہذیب وثقافت ،اس کی عادات ورسومات میں نیا رنگ جھلکنے لگتا ہے ۔ چال ڈھال ،رفتار گفتارمیں تبدیلی آجاتی ہے ۔رنگ ڈھنگ ہی کچھ اور ہوجاتاہے ۔اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے ،رکھ رکھائو،وضع قطع سب بدل جاتے ہیں ۔پسند وناپسند کا معیار دوسراہوجاتاہے ۔ادب پر اجنبی رنگ چڑھ جاتاہے ۔وہ ادب معیاری سمجھاجاتاہے جو فاتح قوم کے ادب کاچربہ ہو،حوالے کے لیے انہی ادیبوں کانام اورکام پیش کیا جاتاہے جو غالب قوم سے تعلق رکھتے ہوں ،زباں بلکہ ہرچیز میں پیوند لگ جاتاہے ۔غلامی ہے ہی ایک پیوند کاری جس میں دیسی آم قلمی آم کی خصوصیات اختیار کر لیتا ہے ۔دور غلامی کے انداز واطوار دراصل ایک دوسری غلامی کی نشان دہی کرتے ہیں،وہ ہے فکری غلامی ،فکرجب غلام ہوجائے تو شاہین کرگس اور شیر گیڈر کا روپ دھار لیتے ہیں۔اس غلامی کا ایک رخ اور بھی ہے جو تخریب نہیں تعمیر ہے ،جو روح کی سرشاری ،اعلی اخلاق کے حصول اورآخرت کی آبادی سے عبارت ہے جو ممولے کو شہباز سے لڑاتی ہے ،یہاں اس رخ کی بات ہورہی ہے جو ملت کا ننگ ،دین کی بربادی اوردنیاکی رسوائی ہے ۔
مسلمانوںپرایسے کئی ادوار آئے جن میں غیر اقوام نے ان پر تسلط جما لیامگر وہ شخصی اور جغرافیائی غلامی تھی ،جلد ہی وہ قومیں مسلم فکر ونظر کی اسیر ہوگئیں انہوں نے گھٹنے ٹیک دیے ۔اقبال کے الفاظ میں
پاسباںمل گئے کعبے کوصنم خانے سے
مغربی اقوام نے بھی مسلم تہذیب اور علم وفن سے بہت کچھ حاصل کیا۔اسی کے سہارے انہوں نے گھٹنوں گھٹنوں چلناسیکھایہاں تک کہ دوڑنے لگ گئیں ۔مسلمانوں سے انہوں نے جوکچھ حاصل کیا اس پر اضافات کرتے ہوئے ایک طرف علم ونظر کے نئے دیے جلائے اوردوسری طرف تہذیب وثقافت کے متضاد راستوں پرچل نکلے ۔یہ بے خدا وبے دین ننگی اورمادی تہذیب تھی جس کے پہلوئوں میںاگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے نئے آفتاب اور جنگ وجدل کے نئے سامان تھے تو اس کے پس پشت شاطر ومکار ذہن کام کر رہاتھا۔سامنے وسیع مسلم حکومتیں تھیں شاداب زرخیز اور مال وزر سے لدے ہوئے مسلم علاقے جن کے وارث اپنا اصلی مقصد بھول کرآپس میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے ۔مسلمانوں کے سیاسی مراکز شکست وریخت کاشکار تھے ۔یہ قومیں ان علاقوں پر یوں حملہ آوروہوئیں جیسے سرد راتوں میں کہر اترتی ہے ۔تھوڑے ہی عرصے میں مسلمان پٹ گئے ۔مغربی قوموں نے انہیں اپنی غلامی میں لے لیا ۔مگر اب کی بار معاملہ دوسراہوگیا بجائے اس کے کہ یہ اقوام مسلمانوں کااثر قبول کرتیں الٹا مسلمان ان کے پنجہ ء تہذیب میں گرفتارہوگئے۔

مغربی قوتوں نے پہلے تو مسلمانوں کی جغرافیائی حدود پر قبضہ کیا پھررفتہ رفتہ مسلمانوں کی فکر پر بھی غلبہ حاصل کرلیا ۔غلامی کا حدود اربعہ صرف برصغیر تک ہی محدود نہیں*بل کہ ہر اس خطے تک پھیلاہوا ہے جو براہ راست ان کے قبضے میں*رہاخطہ ء عر ب کو چھوٹی چھوٹی ٹکریوں*میں*بانٹنا انہی ٹوڈیوں*کی وجہ سے ممکن ہوااردن ویمن کی بادشاہتیں*امارات کی ریاستیں*اورعراق ومصروشام کے ڈکٹیٹر اسی نسل کے شاید اآخری آثار ہیں*جو جنگ عظیم اول سے پہلے انگریز نے تیار کی تھی ۔
آج کے مسلمان بدترین غلامی کاشکار ہیں ،جغرافیائی طور پر گوآزاد ہوچکے ہیں مگر فکری طور پر ان کے غلام ہی ہیں، اسی غلامی کا نتیجہ معاشی ،معاشرتی ،تہذیبی اور عسکری غلامی کی صور ت میں برآمد ہوا ہے۔ ایک مصیبت تو یہ ہے دوسر ی مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق سام راجی قوتیںجاتے جاتے ہمیں کاٹھے انگریزوں کا تحفہ دے گئیں ۔اُن کی نوازشات سے لاٹ نواب اورصاحب بہادر وغیرہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے جب کہ عام آدمی ان کے سامنے چابی کا کھلونا بن کررہ گیا۔یہ لوگ جنہوں نے سرکار برطانیہ اور انکل سام کی چوکھٹ کو اپنا قبلہ وکعبہ بنارکھا ہے انسانوں کی اس برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو شاہ سے بڑھ کرشاہ کی وفادار ہوتی ہے
غلامی قوم کو بزدل بنادیتی ہے ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم من حیث القوم اپنی خودی اور وقار کو پہچانیں اور دنیاوی آسائشوں کو چھوڑ کر سخت کوشی کی زندگی گزارتے ہوئے اپنے آپ کو غلامی کے پنجے سے نکالیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا ہے:

مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر


وقت ایک دولت

وقت ایک دولت

جناب صدر، مہمانان گرامی اور عزیز طلبا

السلام علیکم

میری آج کی گزارشات کا عنوان ہے: وقت ایک دولت

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی

جناب عالی، وقت اللہ کی بہت بڑی نعمت اور دولت ہے جو اس نے انسانوں کو بخشی ہے تاکہ وہ اس کے بہتر استعمال سے اپنے دنیاوی اور اخروی مستقبل کو تابناک بنا سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے وقت کی اسی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں والفجر، والیل، والضحیٰ، اور والعصر کہہ کر وقت کے مختلف حصوں کی قسمیں کھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اصول ہے کہ وہ ہمیشہ کسی غیر معمولی شے پر قسم کھاتا ہے۔ لہٰذا ان آیات میں جو اس نے مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ان کے ذریعے درحقیقت ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اپنی زندگی کے اوقات کو معمولی اور حقیر نہ سمجھو، اس کے ایک ایک لمحہ کا تم سے حساب ہونا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :

اگر قیامت قائم ہوجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا چھوٹا سا پودا ہو تو اگر وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ وہ حساب کے لئے کھڑا ہونے سے پہلے اسے لگا لے گا تو اسے ضرور لگانا چاہئے۔

اندازہ کیجیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پیروکاروںکو کس قدر وقت کی اہمیت اور اعمال صالحہ کا احساس دلا رہے ہیں کہ اگر قیامت قائم ہو جائے اور کوئی اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی ذرا بھر نیکی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو تو اس میں بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرے بلکہ فوراً نیکی کر ڈالے، اور اپنا وقت ضائع نہ کرے۔

بحیثیت مسلمان ہمیں باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کرنا چاہیے ۔تمام اسلامی تعلیمات ، نماز، روزہ، حج ،زکوٰۃ مسلمانوں کی زندگی میں وقت کی اہمیت کوظاہر کرتی ہیں۔ساری عبادات مخصوص اوقات میں فرض کی گئی ہیں۔ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں ضائع کرنے کے لیے وقت بالکل نہیں ہوتا۔ زندگی، آخرت کے لئے کھیتی کی مانند ہے۔ ہم اس میں جو بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔ اگر ہم اس زندگی میں اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے بھلائی، خیر اور حسنات کے بیج بونے میں صرف کریں گے تو کل یوم قیامت ہمیں فلاح و نجات کا ثمر ملے گا۔ دنیا کی زندگی اور اس کا مال و اسباب عارضی اور فانی ہے۔ ہر نفس نے یہاں اپنی مقررہ مدت گزارنے کے بعد دار آخرت کو کوچ کرنا ہے جو مستقل اور ابدی ٹھکانہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت برحق ہے۔ اس عقیدہ پر ایمان رکھتے ہوئے بھی ہم اس دنیا میں غفلت کی زندگی گزاریں تو نہایت تعجب کی بات ہے۔

یاد رکھیں کہ زندگی کی صورت میں جو ’وقت‘ ہم گزار رہے ہیں اس کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہے۔ وقت ایک ایسی چیز ہے جسے آپ کسی بھی کرنسی کے عوض خرید نہیں سکتے۔ یہ انسان کا ایسا محفوظ سرمایہ ہے جو اہس کو دنیا اور آخرت میں نفع دیتا ہے۔ دنیا میں انسان اگر کسی قیمتی چیز کو کھو دے تو امید ہوتی ہے کہ وہ چیز شاید اسے پھر کبھی مل جائے اور بعض اوقات اسے مل بھی جاتی ہے لیکن وقت ایسی چیز ہے جو ایک بار گزر جائے تو پھر اس کے واپس آنے کی ہرگز امید نہیں کی جاسکتی کیونکہ گزرا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔وقت ایک ایسی دولت ہے جسے موبائل پرمیسج کرنے، ٹی وی دیکھنے، انٹرنیٹ پر چیٹ کرنے اور ساری ساری رات لمبی بات کرنے میں ضائع کرنے کے بجائے خدمت خلق ،ملک وقوم کی ترقی اور حصول علم میں صرف کرنا چاہیے۔قوموں کی زندگی میں بھی وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جو قومیں اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئے اس کا بہتر استعمال کرتی ہیں وہ بالاخر دنیا کی قیادت کرتی ہیں اور جو قومیں اپنا وقت فضول مشاغل میں ضائع کرتی ہیں ان کے حصے میں ذلت وپستی اور غلامی ومحکومیت آتی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں وقت کی قدر کرنے اور اپنے ملک و قوم کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کی توفیق دے۔

کبھی اے نوجواں مسلم


کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے

قوموں کی زندگی محض حال و مستقبل ہی سے وابستہ نہیں ہوتی،اُن کا ماضی بھی اُن کی پہچان اور راہ نمائی کا ایک موثر ذریعہ ہوتا ہے۔زندہ و بیدار قومیں دوسروں کی نقالی میں اپنے ماضی کی نفی کرنے کی بجائے اُس سے جڑی رہتی ہیں۔ایسی قوموں کی سنہری رواےات نسلِ جدید کی جانب منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ہماری تاریخ تو اللہ ے فضل سے شان دار ہے۔بدقسمتی سے ہمارے حکمران اِس سے بے خبر اور غیروں کی ذہنی غلامی میں مبتلا ہیں۔آج ہم امتِ مسلمہ کے نوجوانوں کو اپنے ماضی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دےنا چاہتے ہیں۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ، جو قومیں اپنی نوجوان نسل کی مناسب تعلیم و تربیت کا اہتمام نہ کرسکیں وہ اپنی عزت کھوبیٹھتی اور اپنے روشن مستقبل سے محروم ہوجاتی ہیں ۔ بیدار مغز قیادت ہمیشہ نسل جدید کے لئے ایسا ماحول فراہم کرتی ہے ، جس میں اپنے بنیادی عقاید ونظریات کی آبیاری ہو ۔صحت مند معاشرہ اپنی منزل کا تعین کرکے یکسوئی کے ساتھ اس کی جانب گامزن ہوتااور اپنے تابناک ماضی سے آنے والی نسلوں کا رشتہ جوڑے رکھنے کا بھرپور اہتمام کرتاہے ۔جن امتوں کا حال ان کے ماضی سے لا تعلق ہو ، ان کا مستقبل ہمیشہ تزلزل اور بے یقینی کا شکار ہو ا کرتاہے ۔آج کے بچے کل جوان ہوں گے اور آج کے نوجوان کل معاملات ملکی و ملی کی زمام کار اپنے ہاتھ میں لیںگے ۔ ہم اللہ کے فضل سے اتنا شان دار ماضی رکھتے ہیں کہ اس کی روشنی میں ہم مستقبل کی راہیں متعین کریں تو ہر جانب روشنی پھیل جائے ۔ ہمارے پاس ہدایت ربانی کے دوایسے سرچشمے موجود ہیں ، جس کے ہوتے ہوئے ہم کبھی گمراہ و ذلیل نہیں ہوسکتے ۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ ہم محض اپنے ورثے پر فخر و مباہات ہی میں گم ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ اسے حرز جان بنائیں ۔ اس کے اوامرنواہی کودل و جان سے تسلیم کریں اور اس کے جامع نظام کو بلاکم و کاست پورے اخلاص کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لیں ۔ اپنے آباﺅ اجداد پر فخر کرنا بجا ہے مگر وہ فخر باعث ننگ و عار ہوتاہے ، جس میں اخلاف اپنے اسلاف کی راہ سے ہٹے ہوئے ہوں ۔
سید نا علی بن ابی طالب نے کیا خوب فرمایاتھا :
انما الفتٰی من یقول ھا اناذا ولیس الفتٰی من یقول کان ابی
(جواں مرد تو وہ ہے جو میدان میں نکل کرکہے کہ میں چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے موجود ہوں ، وہ کوئی جواں مردنہیں جو مشکل گھڑیوں میں یہ ڈینگیں مارتا پھرے کہ میرے آباو اجداد ایسے تھے اور ویسے تھے ۔)
عالم اسلام میں عالم کفر کے مقابلے میں نوجوانوں کا تناسب کہیں زیادہ ہے ۔ اپنی نوجوان نسل کی وجہ سے امت مسلمہ بہت بڑا سرمایہ اپنے دامن میں رکھتی ہے لیکن اغیار ہمیں ہماری تاریخ سے کاٹنے پر تل گئے ہیں ۔ واحسرتا !چوکیدار چوروں سے مل گئے ہیں بلکہ حقیقت میں چورہی چوکیدار بن گئے ہیں ۔ ہمارا تحفظ اس بات میں ہے کہ ہم اپنی اصل کو پہچانیں ،نہ کہ ہم دوسروں کی نقالی کی بھونڈی حرکتیں کریں ۔ مغرب نے ہمارے نظریات کی بیخ کنی کے لیے خوب سوچ سمجھ کر یہ منصوبہ بندی کی ہے کہ امت مسلمہ کی نوجوان پود کو فحاشی و عریانی ، بے حیائی واباحیت اور بدکاری و عیاشی کا رسیا بنادیا جائے ۔ تفریح کے نام پرایسا مسموم مواد ذہنوں میں انڈیلا جا رہاہے کہ جو زہر ہلا ہل سے بھی زیادہ مہلک ہے ۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اپنے اسلاف سے جوڑنے کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے ۔ علامہ اقبال نے بڑے درددل کے ساتھ اپنی مشہور زمانہ نظم ”خطاب نوجوانان اسلام “میں مسلم نوجوان کو اس کا مقام یاد دلایا تھا ،چند اشعار ملاحظہ فرمائیے ۔ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے؟ وہ کیا گردوں تھا ، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟ آج ضرورت اس امر کی ہےکہ نوجوان نسل کو اس دور سعید سے جوڑ دیا جائے ،جسے خیر القرون کہاگیاہے ۔ وہ دور کہ جب آسمان سے زمین پر براہ راست وحی کی روشنی اترتی تھی اور اس روشنی میں پروان چڑھنے والی نسل جیل القرآن کہلائی ۔ بعض لوگ یہ بحث چھیڑدیتے ہیں کہ جوان کون ہے۔ بلاشبہ عمر کا وہ حصہ جس میں صلاحیتیں مسلسل پروان چڑھتی چلی جاتی ہیں ، جسم و جان او ردل ودماغ کی قوتیں جوبن پر ہوتی ہیں اور کچھ کر گزرنے کا سودا سر میں سمایا ہوتاہے، اسی کو دور جوانی کہا جاتاہے ۔ اس معروف تعریف کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ بسا اوقات ماہ و سال کے پیمانوں سے ناپیں تو کوئی شخص نوجوان کہلانے کا مستحق ٹھہرے گا لیکن قلب و جگر اور جذبات وعزائم کو پرکھیں تو وہ جوان بوڑھا ثابت ہوگا ۔ اس کے برعکس بعض سفید ریش ، عمر رسیدہ افراد اپنی حرارت ایمانی اور حمیت دینی کی وجہ سے تازہ دم اور نوجوان کہلانے کے مستحق ٹھہریں گے ۔ یوں بیس سالہ بوڑھے اور ستر سالہ جوان بھی تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔ ہم ان نوجوانوں کو مخاطب کرنا چاہ رہے ہیں کہ جن کی جوانیاں بھی بے داغ ہوں اور ضرب کاری کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں ۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ،ضرب ہے کاری

Sunday, November 20, 2011

آج کا طالب علم ،کل کا راہ نما

جناب صدر ، مہمانان گرامی اور عزیز طلبا

السلام علیکم

میری آج کی گزارشات کا عنوان ہے آج کا طالب علم ،کل کا راہ نما

دلائل اخباریہ و جہانیہ ، دلائل برہانیہ وخطابیہ، دونوں اعلانیہ پلٹ کر کہہ رہے ہیں کہ آج کا طالب علم کل کا راہ نما ہے۔

حضرات گرامی! یہ دستور زمانہ ہےکہ کل جو پیدا ہوا، آج کا راہ نما ہے۔ اور جو آج پیدا ہوگا لامحالہ کل کی صدارت اور امارت اس کے حصے میں آئے گی۔ آپ نے دیکھا، علامہ محمد اقبال،محمد علی جناح، جواہرلال نہرو، گاندھی اور چرچل کل کے طالب علم تھے اور آج کے راہ نماہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی کل طالب علم تھے اورڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹرثمر مبارک مندبھی ، جنھوں نے پاکستان کو علم وتحقیق میں نمایاں مقام دیا۔اسی اصول پرجو آج کے طالب علم ہیں وہ کل کے راہ نما ہوں گے۔ ان کی راہ نمائی میں یہ راز مضمر ہے کہ انھوں نے تعلیم کے زیور سے خود کو آراستہ کیا۔ اسی لیے علامہ محمد اقبال نے فرمایاتھا:

علم میں دولت بھی ہے، طاقت بھی ہے،لذت بھی ہے

ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ

کسی بھی قوم کے نوجوان اس کا مستقبل اورسب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ جب ان نوجوانوں کی ہمت بلند اور عزم آہنی ہوتو کوئی انھیں شکست نہیں دے سکتا۔ پاکستان کے قیام میں انھی نوجوانوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوا دیا۔ آج بھی ہم اپنی نوجواں نسل سے وہی توقع رکھتے ہیں۔ بہت سی کوتاہیوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان نوجوانوں میں آج بھی عزم وحوصلے کی کمی نہیں ہے۔ یہ کسی بھی میدان میں اپنا آپ منوانے کی ہمت رکھتے ہیں۔

لیکن شرط یہی ہے کہ آج کے طالب علم اپنی آج کی ذمہ داری کوپورا کریں۔ اپنی تعلیم پر توجہ دیتے ہوئے اپنے آپ کو علم وہنرسے آراستہ کریں تاکہ کل کے پاکستان کو قوموں کی صف میں نمایاں طور پر کھڑا کر سکیں۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند
اس قوم سے تاریخ کے معمار نہ مانگو