Thursday, November 24, 2011

ذہانت حسن سے بہتر ہے

ذہانت حسن سے بہتر ہے

صدرِ محترم،مہمانان گرامی اور عزیزطالبات۔

السلام علیکم

ہمارا آج کا موضوع ہے‘‘ ذہانت حسن سے بہتر ہے’’ اور اسی بات کی وکالت کے لیے میں آپ کے سامنے ہوں۔اہل فلسفہ نے کہا ہے کہ غرور کی پانچ قسمیں ہیں حسن کا غرور، دولت کاغرور ، طاقت کا غرور، علم کا غرور اور عشق کا غرور۔ پھر کہتے ہیں کہ حسن ،دولت اور طاقت کا غرور جائز نہیں، کیونکہ یہ تینوں صلاحیتیں انسان اپنی کوشش سے حاصل نہیں کرتا ،بلکہ اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں۔ اور پھر پرائی چیز پر غرور کیسا ۔ہاں علم کا غرور جائز تو ہے مگر اچھا ہے کہ نہ ہو لیکن عشق کا غرور انسان کے لیے

کروکج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

. کہ غرورِ عشق کا با نکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا

علامہ اقبال کے نزدیک، حسن، عقل اور عشق تین مدارج حیات ہیں۔ جب بات آتی ہے حسن و عشق کی تو لا محالہ ماننا پڑتا ہے کہ عشق دیوانہ ہے، حسن پیمانہ ہے۔ مگر جب ذکر چھڑ جائے عقل یعنی ذہانت کا تو حضرت اقبال کو بھی کہنا پڑتاہے کہ

عشق، اب پیروئ ِ عقل ِ خداد کرے

آبرو کوچہء جاناں میں نہ برباد کرے

جنابِ والا!

میں یہاں یہ عرض کروں گی کہ میری مراد انسانی حسن و جمال ہے، یہاں مقصود شکل و شباہت کی خوبی ہے۔ چنانچہ لا محالہ کہنا پڑے گا کہ عقل ہی برتر ہے۔ کیونکہ عقل کے بغیرحسن تو خود گہنائے ہوئے چاند کی طرح ہے۔کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص جو عقل سے محروم ہو،چاہے کتنا ہی پری جمال کیوں نہ ہو،کوئی اسے زندگی کا ساتھی نہیں بنا سکتا۔ البتہ جمال سے محروم کوئ بھی فرد ،عقل کی بنیاد پر کسی کی زندگی میں شامل ہوسکتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ حسن وجمال میں بلا کی کشش ہے۔ حسن کو عقل پر ترجیح دینے والے لوگوں میں ایک محاورہ مشہور ہے کہ ، “اگر ملکہ قلوپطرہ کی ناک تھوڑی سی ٹیرھی ہوتی تو آج دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

جناب والا !

ایسا کہنے ہوئے ان کے پیش ِ نظر یہ ہوتا ہے کہ قلوپطرہ کا حسن سیزر کی فتوحات اور جنگوں کا باعث بنا۔ مگر تاریخ کو اُٹھا کر دیکھیے، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اُن فتوحات کے پیچھے قلوپطر ہ کی خوبصورت ناک نہیں بلکہ اُس کی بے پناہ ذہانت تھی۔

حاضرین محترم

علامہ اقبال فرماتے ہیں،

اک دانشِ نورانی، اک دانشِ برہانی

!ہے دانشِ برہانی، حیرت کی فراوانی

جی ہاں ! جناب والا!

دانشِ برہانی ہی ذہانت ہے، جو حیرت کدوں کو جنم دیتی اور پروان چڑھاتی ہے۔ اسے قرآن پاک کی زبان میں حکمت کہتے ہیں۔ اور قرآن پاک میں حکمت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا

اللہ جسے چاہتا ہے حکمت ودانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت ودانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔

حسن تو عارضی چیز ہے۔ آج ہے کل نہیں، بقولِ شاعر،

اُس کے چہرے پہ چڑھا روپ اُتر جائے گا

جب جوانی کا حسیں دور گزر جائے گا

لیکن ،حاضرین محترم ذہانت ایک ایسا انسانی اعزاز ہے جو سدا قائم و دائم رہتا ہے۔ کیونکہ ذہانت علم و حکمت کا منبع و مصدر ہے۔

میں یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ

حسن خیروشر دونوں کا موجب بن سکتا ہے ،مگر ذہانت صرف خیر ہی خیر ہے۔حسن تاج محل ہے تو ذہانت تاج محل بنانے والا ہاتھ ہے۔ حسن جلوہ گر ہے تو ذہانت حسن کا گھر ہے۔حسن پُر کشش ہے تو ذہانت دانش ہے۔حسن علامت ہے تو ذہانت فراست ہے۔ حسن کمال ہے تو ذہانت استقبال ہے، حسن جمال ہے تو ذہانت خیال ہے، حسن منظر ہے تو ذہانت ناظر ہے، حسن قدرت ہے تو ذہانت فطرت ہے،حتی کہ حسن مقصد زندگی ہے تو ذہانت خود زندگی ہے۔

No comments:

Post a Comment