Sunday, January 20, 2013

انقلاب ایک تبدیلی کا نام ہے


عزت ماب  صدر مجلس اور محترم حاضرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم   کی حیات کشمکش ِانقلاب
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہرزماں اپنے عمل کا حساب
صدر ِمحترم ،  علامہ صاحب نے انقلاب  کے بغیر زندگی کو موت سے تشبیہ دی ہے، اور اسے قوموں کی روح کی حیات قرار دیا ہے۔انقلاب ایک تبدیلی کا نام ہے۔ ایسی تبدیلی جو ذہنی  بھی ہوسکتی ہے اور جسمانی بھی۔انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی۔ عمومی حالات و واقعات  بھی بعض وقت انسان میں  ظاہری تبدیلی لاتے ہیں ، لیکن مادی بدلاؤ سے رونما ہونے والی تبدیلیاں  عارضی ہوتی ہیں ۔ ذہن کی تبدیلی تا دیر قائم رہنے والی ہوتی ہے۔ کچھ انقلاب ایسے ہوتے ہیں جو خاموشی سے آتے ہیں ،لیکن ان کے پس پشت بھی افراد کی انفرادی یا اجتماعی کوشش اور جدوجہد ہوتی ہے۔ جیسے کوئی مرد یا عورت مسلسل اچھے کام کر رہے ہیں تو انجام کے طور پر انہیں  اچھائی ہی ملے گی۔ اور جو برے کام میں  مصروف ہیں  تو ایک نہ ایک دن ان کا انجام برا ہی ہوگا۔
ہم جتنے اچھے کام کرتے جائیں  گے ، اتنا اچھائی میں  حصہ پائیں  گے اور جتنے برے کام کریں  گے، اتنا برا نتیجہ ملے کا۔ گو بعض کاموں  کا انجام جلد نکلتا ہے۔ اور بعض کاموں  کا نتیجہ دیر سے نکلتا ہے۔جب نکلتا ہے تو لوگوں  کی نظر میں  جو ان حالات سے نا واقف تھے ، ایک انقلاب ہوگا۔ اور یہی انقلاب ہوتا ہے۔ یہ افراد کی زندگی میں  آنے والے انقلاب ہیں ، اسی طرح قوموں  کی زندگی میں  بھی، انقلاب آتے ہیں ۔جو قوم کے مجموعی کام کا ردِعمل ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمْ ۔ بے شک اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔
قوموں  کے انقلاب کی تاریخ پر جب نظر کی جائے تو ہمیں  معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی انقلاب از خود اوپر سے برسات کی طرح ٹپکتا نہیں  ہے ۔انقلاب ہمارے دروازوں  پر آکر دستک نہیں  دیتا ہے۔انقلاب یہ نہیں  کہتا کہ دروازہ کھولو، میں  انقلاب ہوں ، لو میں  آگیا۔ میں  آپکے گھر وں  میں  رہنے کے لیے، آپ کو خوشیاں  دینے کے لیے آیا ہوں ، ہر انقلاب ہمارے خون  پسینےسے کی گئی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے، ہم جس انداز کی محنت کریں  گے، اس انداز کا نتیجہ نکلے گا، منفی انداز کی محنت کا نتیجہ بھی منفی ہی ہوگا، اور مثبت انداز کا نتیجہ ہمیشہ مثبت ہی نکلتا ہے ۔صرف دعائیں  ، جو محنت سے خالی ہوں ، ہماری تقدیریں  نہیں  بدل سکتیں ، اسی لیے کہتے ہیں  ہماری تدبیر ہمیں  ہماری تقدیر کی طرف لے جاتی ہے۔ محنت سے ہر چیز کا حصول ممکن ہے۔لیکن صرف چیزوں  کا حصول ہی زندگی نہ بن جائے۔ یہاں  یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ صرف محنت سے بھی انسان تھک جاتا ہے، اگر اسے مستقبل قریب میں  کسی بڑے انعام کی توقع نہ ہو،یہ کام عقیدہ کرتا ہے۔ اللہ پر یقین انسان کو مستقل مزاج بناتا ہے۔ ناکامیوں  میں  مسکرانے کا حوصلہ دیتا ہے۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے لیے انسان اپنی جان پر کھیل جاتا ہے۔ دوا او ر دعا دونوں  کا صحیح رخ میں  چلنا ، ایک دوسرے کاساتھ دینا ضروری ہے۔ ا س لیے آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی کاہلی کو چھوڑ کر ، اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے حالات کو بدلنے کا عزم کریں اور ہرانسان یہ طے کرلے کہ دوسرے چاہے جو کریں میں نے اپنی ذمہ داری کوہر حال میں پورا کرنا ہے۔

No comments:

Post a Comment